Jaun Elia Ghazal Poetry From Book Goya
ہم جی رہے ہیں کوئی بہانہ کیے بغیر
اس کے بغیر ، اس کی تمنا کیے بغیر
انبار اس کا پردہِ حرمت بنا میاں
دیوار تک نہیں گری ، پردہ کیا بغیر
یاراں! وہ جو ہے میرا مسیحائے جان و دل
بے حد عزیز ہے مجھے ، اچھا کیے بغیر
میں بسترِ خیال پہ لیٹا ہوں اس کے پاس
صبحِ ازل سے کوئی تقاضا کیے بغیر
اس کا ہے جو بھی کچھ ، ہے مرا اور میں مگر
وہ مجھ کو چاہیے کوئی سودا کیے بغیر
یہ زندگی جو ہے اسے معنی بھی چاہیے
وعدہ ہمیں قبول ہے ، ایفا کیے بغیر
اے قاتلوں کے شہر! بس اتنی سی عرض ہے
میں ہوں نہ قتل ، کوئی تماشا کیے بغیر
مرشد کے جھوٹ کی تو سزا بےحساب ہے
تم چھوڑیو نہ شہر کو ، صحرا کیے بغیر
ان آنگنوں میں کتنا سکون و سرور تھا
آرائشِ نظر تری ، پروا کیے بغیر
یاراں! خوشا! یہ روز و شبِ دل کہ اب ہمیں
سب کچھ ہے خوشگوار ، گوارا کیے بغیر
گریہ کناں کی فرد میں اپنا نہیں ہے نام
ہم گریہ کن ازل کے ہیں ، گریہ کیے بغیر
آخر ہیں کون لوگ جو بخشے ہی جائیں گے
تاریخ کے حرام سے ، توبہ کیے بغیر
سنی بچہ وہ کون تھا ، جس کی جفا نے جون
شیعہ بنا دیا ہمیں ، شیعہ کیے بغیر
اب تم کبھی نہ آؤ گے ، یعنی کبھی کبھی
رخصت کرو مجھے کوئی وعدہ کیے بغیر
جون ایلیا
Goya
Jaun Elia Sad Poetry Collection
طلسمی سر زمیں ہے، جانے کیا ہو
یہاں کچھ بھی نہیں ہے،جانے کیا ہو
عجب ہی کچھ ہے اس بستی کا انداز
کچھ اندازہ نہیں ہے، جانے کیا ہو
کبھی اک شور اٹھتا ہے پر اب کے
خموشی نکتہ چیں ہے، جانے کیا ہو
گراں ہے اب یہاں جنس گماں بھی
وہ افلاس یقیں ہے، جانے کیا ہو
جدا ہیں اور نہیں تاب جدائی
ابھی تک دل وہیں ہے، جانے کیا ہو
ٹھہر ، اشک سر مثرگاں جاناں!
یہ میری سر زمیں ہے جانے کیا ہو
یہ ہنگام تلاطم تھا مگر دل
تلاطم تہ نشیں ہے، جانے کیا ہو
ہیں کچھ قصے یہاں اس کے سوا بھی
اسے آنا یہیں ہے، جانے کیا ہو
کسی محرموں میں دل ہمارا
عبارت آفریں ہے ، جانے کیا ہو
چلے تو آئے ہو تم پر مری جاں
وہ در اب بے جبیں ہے، جانے کیا ہو
یونہی دل صبح سے اندوہگیں ہے
بہت اندوہگیں ہے ،جانے کیا ہو
جون ایلیا
Goya
0 Comments